Montag, 11. Juli 2011

ترقی

میرا جی

ترقی


بھید لکھا تھا یہ پتھر پہ پیا داسی نے
اسی چوکھٹ پہ نصیبا جاگا
جس پہ بڑھتے ہوئے پاؤں جھجکے
اور جنگل میں گئے
قصرِ عشرت میں وہ اک ذرہ تھا
قصرِ عشرت میں ازل سے اب تک
جو بھی رہتا رہا اک راگ نیا گاتا رہا
اور جنگل میں وہی راگ ۔۔۔پرانا نغمہ
گونجتا تھا کہ ہر اک بستی سے
آخری عیش کو دوری ہی بھلی ہوتی ہے
اس نے جنگل میں یہ جا کر جانا
بستیاں اور بھی ویران ہوئی جاتی ہیں
وہ چمک،منزلِ مقصود ،چراغ
دائیں بائیں کی ہواؤں سے ہر اک پل،ہر آن
نور کھونے کو ہے،لو! نور مٹا،نور مٹا
اس کی لو کانپتی جاتی ہے ذرا تھمتی نہیں
ابھی بڑھنے کو ہے،بڑھنے کو ہے،بڑھ جائے گا
یہ چراغِ انساں
یہی اک دھیان اسے آگے لیے جاتا ہے
اور وہ بڑھتا گیا
پیڑ کی چھاؤں تلے سوچ میں ایسا دوبا
بن گیا فکرِ ازل،فکر، ابد
اور جنگل سے نکل آیا تو اس نے دیکھا
بستیوں میں بھی اسی چاہ کے انداز نرالے ،پھیلے
اور پھر وہ بھی تھا بھائی،میں بھی
دیوتا اس کو بنایا کس نے؟
کہہ تو دو قصرِ مسرت میں جواک ذرہ تھا
اس کو اک عالمِ ادراک بتایا کس نے؟
اسی انساں نے جو ہر بستی کو
آج ویرانہ بنانے پہ تلا بیٹھا ہے
اور اک ذرے کے بل پر افسوس
بھید کیوں لکھا نہیں تھا یہ پیا داسی نے
راستے اور بھی ہیں،اور بھی ہیں،اور بھی ہیں
اسی اک ذرے کی چوکھٹ پہ نصیبے کو بھی نیند آہی گئی
 
تین رنگ

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen