Dienstag, 12. Juli 2011

خدا

میرا جی

خدا


میں نے کب دیکھا تجھے روحِ ابد

ان گنت گہرے خیالوں میں ہے تیرا مرقد
صبح کا،شام کا نظارہ ہے
ذوقِ نظارہ نہیں چشمِ گداگرکو مگر

میں نے کب جانا تجھے روحِ ابد

راگ ہے تو پہ مجھے ذوقِ سماعت کب ہے
مادیّت کا ہے مِرا ذہن،مجھے
چھو کے معلوم یہ ہو سکتا ہے شیریں ہے ثمر
اور جب پھول کھلے اس کی مہک اُڑتی ہے
اپنی ہی آنکھ ہے اور اپنی سمجھ،کس کو کہیں۔۔تو مجرم

میں نے کب سمجھا تجھے روحِ ابد

خشک مٹی تھی مگر چشمِ زدن میں جاگی
اُسے بے تاب ہوا لے کے اُڑی
پھر کنارا نہ رہا،کوئی کنارا نہ رہا
بن گیا عرصۂ آفاق نشانِ منزل
زور سے گھومتے پہیے کی طرح
ان گنت گہرے خیال ایک ہوئے
ایک آئینہ بنا
جس میں ہر شخص کو اپنی تصویر
اپنے ہی رنگ میں اک لمحہ دکھائی دی تھی
ایک لمحے کے لیے
بن گیا عرصۂ آفاق نشانِ منزل

میں نے دیکھا ہے تجھے روحِ ابد

ایک تصویر ہے شب رنگ ،مہیب
درِ معبد پہ لرز اٹھے ہرایک کے پاؤں
ہاتھ ملتے ہوئے پیشانی تک آئے دونوں
خوف سے ایک ہوئے

میں تجھے جان گیا روحِ ابد

تو تصور کی تمازت کے سوا کچھ بھی نہیں
(چشمِ ظاہر کے لیے خوف کا سنگیں مرقد)
اور مِرے دل کی حقیقت کے سوا کچھ بھی نہیں
اور مرے دل میں محبت کے سوا کچھ بھی نہیں

تین رنگ

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen