Donnerstag, 27. Dezember 2012

سب کے اپنے میرا جی



سب کے اپنے میرا جی
.............................

سعید شباب  
(مدیر ادبی کتابی سلسلہ نایاب۔خان پور)


مئی۲۰۱۲ء سے مئی ۲۰۱۳ء تک میرا جی صدی کا سال ہے ۔اس عرصہ میں غیر متوقع طور پر ادبی دنیا نے میرا جی کی طرف غیر معمولی توجہ کی۔بے شک یہ توجہ اس سطح کی تو نہیں ہے جس سطح کی توجہ فیض اور منٹو کو دی گئی ہے۔لیکن اس عرصہ میں جس حد تک میرا جی کا ذکرسننے میں آتا رہا ہے وہ اردو کے منظر نامہ میں بڑی حد تک غیر معمولی کہا جا سکتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ میرا جی کا جتنا ادبی حق بنتا ہے،وہ ابھی انہیں نہیں ملا۔لیکن جس بے رحمی سے انہیں نظر انداز کیا جاتا رہا ہے اسے مد نظر رکھیں تو کہہ سکتے ہیں کہ اب چاہتے ہوئے بھی اور نہ چاہتے ہوئے بھی ادب و صحافت سے وابستہ افراد میرا جی پر لکھنے لگے ہیں۔لیکن یہاں ادبی دنیا کی گروہ بندیوں میں بعض افراد کی گروہی مصلحت پسندی،ذاتی ترجیحات یا تعصبات اور بعض معاملات میں منافقت کے باعث منفی رویے بھی سامنے آئے ہیں۔میں ایسے چند رویوں کا اس مضمون میں ذکر کرنا چاہتا ہوں،ان کی نشان دہی کرنا چاہتا ہوں تاکہ کوئی اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ وہ کسی طور ڈنڈی مار کر اپنا کوئی مقصدپورا کر لے گا۔لیکن اس سے پہلے میں میرا جی پر ہونے والے چند مثبت ادبی کاموں کا ذکر کرنا چاہوں گا۔
مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد کی جانب سے اپریل ۲۰۱۰ء میں ایک کتاب بہ عنوان’’میرا جی‘‘شائع کی گئی۔اس کے مرتبین ڈاکٹر رشید امجد اور ڈاکٹر عابدسیال ہیں۔ ۴۰۰ سے زائد صفحات کی اس کتاب میں میرا جی پر لکھے گئے تازہ اور پرانے مضامین کا انتخاب شامل کیا گیا ہے۔ستمبر ۲۰۱۱ء میں ارشد خالد نے عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد کے شمارہ نمبر ۱۴میں میرا جی کا ایک مختصر لیکن عمدہ گوشہ شائع کیاہے۔اس میں اخترالایمان کا ایک نایاب مکتوب بنام ڈاکٹر رشید امجد،حیدر قریشی کا مضمون’’میرا جی شخصیت اور فن‘‘،ڈاکٹرناصر عباس نیرکا ’’سمندر کا بلاوا‘‘کا ساختیاتی تجزیاتی مطالعہ کے ساتھ میرا جی کی چار نظمیں اور ایک غزل شائع کی گئی ہے۔اسی شمارہ میں ارشد خالد نے اپنے اداریہ میں تحریر کیا ہے کہ:
’’ مختلف تعصبات کی بنا پر بعض شاعروں اور ادیبوں کو نظر انداز کرنے کا رویہ بھی ہمارے یہاں کچھ بڑھنے لگا ہے۔اس کی ایک نمایاں مثال میرا جی اور راشد ہیں۔اگرچہ مقتدرہ نے فیض صدی کے ساتھ راشد صدی اور میرا جی صدی کے طور پر ان کے بارے میں بھی کتابیں مرتب کرائی ہیں،اور یہ ایک مثبت اشارا ہے۔راشد کے بارے میں نسبتاََ بہتر توجہ کی جانے لگی ہے لیکن میرا جی کو عام طور پر ابھی بھی نظر انداز کیا جارہا ہے۔اس رویے میں تبدیلی لانے کے لیے اس بار میرا جی کا مطالعۂ خاص پیش کیا جا رہا ہے۔امید ہے اس سے میرا جی کی تفہیم کے امکانات کھل سکیں گے اور ادبی دنیا سنجیدگی کے ساتھ اس طرف توجہ کر سکے گی۔‘‘
۲۰۱۱ء میں یعنی میرا جی صدی کا سال شروع ہونے سے پہلے انٹرنیٹ پر ایک بلاگ قائم کیا گیا۔اس بلاگ پر کسی بھی ویب سائٹ سے زیادہ میرا جی سے متعلق مواد موجود ہے۔میرا جی سے متعلق تازہ ترین مباحث بھی یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
http://poetmeeraji.blogspot.de/
۲۰۱۱ء ہی میں مصر سے ایم اے کا مقالہ میرا جی پر لکھا گیا۔جدید ادب جرمنی کے میرا جی نمبر میں اس کی تفصیل ان الفاظ میں درج ہے۔
’’ حرکۃ التجدید فی الشعر الاردی الحدیث عند میراجی(جدید اردو شاعری میں جدت پسندی کی تحریک میراجی کے آئینے میں)، ھانی السعید, رسالۃ مقدمۃ الی قسم اللغۃ الاردیۃ بکلیۃ اللغات والترجمۃ لنیل درجۃ الماجستیر فی اللغۃ الاردیۃ وآدابھا، جامعۃ الازہر, القاھرۃ, مصر، 2011م. ‘‘
مجموعی طور پر میرا جی پر ایم اے کی سطح کے پانچ مقالہ جات لکھے جا چکے ہیں۔۲۰۱۲ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اشفاق رضا نے’’اردو میں میرا جی شناسی‘‘کے عنوان کے تحت اپنا ایم فل کا مقالہ مکمل کیا۔ مجموعی طور پر میرا جی پر ایم فل سطح کے پانچ مقالہ جات لکھے جا چکے ہیں۔ اسی برس پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ایک طالبہ نے میرا جی پر پی ایچ ڈی کی رجسٹریشن کرائی۔ اس کا علم تب ہوا جب انہوں نے عکاس کے مدیر ارشد خالد کو فون کرکے ان سے عکاس انٹرنیشنل کا شمارہ نمبر ۱۴ منگایا اور اسی دوران بتایا کہ وہ جدید ادب جرمنی کا میرا جی نمبر انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کر چکی ہیں۔ اس سے پہلے ڈاکٹر رشید امجد میرا جی پر پی ایچ ڈی کر چکے ہیں۔ہندوستان کی یونیورسٹیوں میں میرا جی پر کوئی کام ہوا ہو تو میرے علم میں نہیں ہے۔
۲۰۱۲ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور میں میرا جی پر سیمینار ہوا۔اسی برس انگلینڈ میں منٹو اور میرا جی پر مشترکہ اردو کانفرنس ہوئی۔اس میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے شرکت کی اور اس میں شمس الرحمن فاروقی کا مقالہ بھی پڑھ کر سنایا گیا۔اسی برس امریکہ کے حلقہ ارباب ذوق کی جانب سے بھی میرا جی کانفرنس کی خبر سننے میں آئی تھی لیکن اس کی رپورٹ میری نظر سے نہیں گزری۔اسی برس دہلی میں منٹو اور میرا جی پر تقریبات ہوئیں۔یہاں بھی ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے میرا جی کی ادبی خدمات کا شاندار الفاظ میں اعتراف کیا۔کراچی کی اردو کانفرنس میں میرا جی سیشن رکھا گیا۔اس میں سب سے اہم تقریر شمیم حنفی کی تھی۔انتظار حسین کے ۹ نومبر کے کالم کے مطابق لمز میں میرا جی کی یاد میں تقریب ہوئی۔مبارک احمد کے بیٹے ایرج مبارک نے اپنی ادبی انجمن کا اجتماع میرا جی سے منسوب کیا۔
میرا جی صدی کا سب سے اہم اور قابلِ ذکر کام جدید ادب جرمنی کا میرا جی نمبرشائع کرنا ہے۔شمارہ جولائی تا دسمبر ۲۰۱۲ء ہے۔یہ صرف میرا جی صدی کی نسبت سے نہیں بلکہ تاریخی طور پر بھی میرا جی پر شائع کیا جانے والا کسی ادبی جریدہ کا پہلا میرا جی نمبرہے۔ جدید ادب جرمنی کے مدیر حیدر قریشی نے یہ تاریخ ساز کام کیا ہے۔خیال رہے کہ سال ۲۰۱۱ء میں میرا جی کا بلاگ تعمیر کرنا بھی حیدر قریشی ہی کا کارنامہ ہے۔جدید ادب کے میرا جی نمبر میں ان کی شخصیت کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے لیکن ان کی شخصیت سے زیادہ ان کے فن پر توجہ کی گئی ہے۔ ان کے فن کی مختلف اور تمام جہات پر متنوع مطبوعہ اور غیر مطبوعہ مضامین شامل کیے گئے ہیں۔نہایت معتبر اور اہم لکھنے والے ادیبوں اور نقادوں کے مضامین شامل کیے گئے ہیں۔میرا جی کی غزلوں،نظموں اور گیتوں کا ایک بہترین انتخاب شامل کیا گیا ہے۔میرا جی کے چند اہم مضامین اور تجزیے شامل کیے گئے ہیں۔میرا جی کی نظموں کے انگریزی،جرمن،روسی،ڈچ،اٹالین،عربی،ترکی،فارسی،آٹھ زبانوں میں ترجمے شامل کیے گئے ہیں۔ان تراجم کے ساتھ انگریزی زبان میں میرا جی پر تین مضامین کو شامل کیا گیا ہے۔میرا جی کی غزلوں کی زمین میں غزلیں کہی گئی ہیں اور ان کے بارے میں نظمیں لکھی گئی ہیں۔اس گوشہ میں ندا فاضلی اور ایوب خاور سے لے کر نئے لکھنے والے تک شامل ہیں۔یہ تاریخ ساز میرا جی نمبر ۶۰۰ صفحات پر مشتمل ہے،اور میرا جی شناسی میں مستقل اور دستاویزی حیثیت کا حامل بن گیا ہے۔
جدید ادب کے میرا جی نمبر کے بعد آصف فرخی نے ڈیلی ڈان کی ۴ نومبر۲۰۱۲ء کی اشاعت میں میرا جی پر پانچ مطبوعہ و غیر مطبوعہ مضامین ایک ساتھ شائع کیے۔ان کے رسالہ دنیا زاد میں میرا جی پر دو مضامین الگ سے شامل کیے گئے ہیں۔
میرا جی کے بارے میں ہونے والے کام کی یہ ایک اجمالی جھلک ہے۔ہر کسی نے اپنے اپنے انداز سے اپنے میرا جی کو دیکھا ہے۔اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ میرا جی کی شخصیت سے زیادہ ان کے فن کی طرف توجہ ہونے لگی ہے۔اب میں میرا جی صدی کے ضمن میں ہونے والے بعض منفی رویوں کا ہلکا سا ذکر کروں گا۔
ظفر اقبال نے جدید ادب کے میرا جی نمبر پر کالم لکھتے ہوئے میرا جی کے خلاف محض اس لیے لکھا کہ اس نمبر میں مظفر حنفی کا ایک مضمون شامل تھا جس میں یہ انکشاف بھی تھا:
’’میرا جی کے متفرق اشعار پڑھتے ہوئے مجھے بے ساختہ ظفر اقبال یاد آگئے۔تین چار آپ بھی ملاحظہ فرمائیں
: ملائیں چار میں گر دو تو بن جائیں گے چھ پل میں
نکل جائیں جو چھ سے دو تو باقی چار رہتے ہیں
 
کیا پوچھتے ہو ہم سے یہ ہے حالتِ جگر
پی اس قدر کہ کٹ ہی گیا آلتِ جگر
 
چہرے کا رنگ زرد، مئے ناب کا بھی زرد
یہ رنگ ہیں کہ رنگ ہے پیشاب کا بھی زرد
 
دن میں وظیفہ اس کا کئی بار کیجیے
اپنے جگر کے فعل کو بیدار کیجیے

یعنی زبان کی توڑ پھوڑ اور مضامین کی اکھاڑ پچھاڑ کا جو کام ظفر اقبال آج کر رہے ہیں،اُس کا آغاز میرا جی نے ۷۰۔۸۰ برس پہلے کر دیا تھا۔دیکھیں وہ میرا جی کے اس فیضان کا اعتراف کب کرتے ہیں۔‘‘
اس انکشاف کے پیش نظر ظفر اقبال کی مخالفت قابلِ فہم ہے اور اس کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔
انتظار حسین نے اپنے ۹ نومبر۲۰۱۲ کے کالم میں دو ڈنڈیا ں ماری ہیں۔ایک تو یہ تاثر دیا کہ انگریزی اخبار ڈان نے انگریزی کے پانچ مضامین ایک ساتھ شائع کیے،اور اس کے بعد جدید ادب جرمنی کا میرا جی نمبرشائع ہوا۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جدید ادب جرمنی کا میرا جی نمبر انتظار حسین کو اگست،ستمبر میں مل چکا تھا۔جدید ادب کی اشاعت کی خبر ملنے کے بعد ڈان نے مضامین شائع کیے۔دوسری ڈنڈی انہوں نے یہ ماری کہ میرا جی کے جنازہ کو استہزاء کا نشانہ بنایا۔نتیجہ یہ نکلا کہ حیدر قریشی نے انٹرنیٹ پر وضاحت کر دی کہ بمبئی میں قیام پاکستان کے بعد میرا جی کے پاکستانی ہونے کی وجہ سے ان کی وفات پر زیادہ لوگ نہیں آئے۔ہر کوئی ڈرا ہوا اور محتاط تھا۔جواباََحیدر قریشی کو پھر یہ بھی یاد دلانا پڑا کہ راشد کی میت کو تو جلادیا گیا تھا۔مجید امجد کی میت گندگی کے ٹرک پر بے رحمانہ طریق سے ان کے گھر بھجوائی گئی تھی۔یہ وضاحتیں تکلیف دہ ہیں لیکن میرا جی کے بارے میں انتظارحسین جیسے ٹھنڈے میٹھے ادیب کے گرم اور کڑوے اعتراض کے بعد ایسا جواب دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
ظفر سید کے نام سے بی بی سی کی ویب سائٹ پر کسی صحافی نے میرا جی پر ۲۵دسمبر کو مضمون شائع کیا ہے،یہ مضمون ۲۷ دسمبر۲۰۱۲ء کو دہلی کے روزنامہ ہمارا مقصدنے شائع کیا ہے۔اس مضمون میں میرا جی کے بارے میں بیان کی گئی کوئی ایک اہم بات،کوئی اطلاع ، ایسی نہیں ہے جو جدید ادب کے میرا جی نمبر میں موجود نہ ہو۔لیکن موصوف نے میرا جی صدی کی مناسبت سے لکھا ہے:
’’لیکن اس تمام ہاؤ ہو میں کسی کو ایک نام یاد ہی نہ رہا، یا اگر یاد بھی رہا تو محض سر سے بوجھ اتارنے کی مانند۔۔۔۔۔ اس سال کو منٹو صدی کے ساتھ ساتھ میرا جی صدی کے طور پر بھی منایا جانا چاہیے تھا کیوں کہ میرا جی اور سعادت حسن منٹو نہ صرف ایک ہی سال (1912) بلکہ ایک ہی مہینے (مئی) میں پیدا ہوئے تھے۔ لیکن سوائے جرمنی سے شائع ہونے والے ایک رسالے کے میرا جی نمبر، اور کراچی میں اردو کانفرنس کے ایک اجلاس کے علاوہ کہیں کچھ دیکھنے سننے یا پڑھنے میں نہیں آیا۔‘‘
میں اپنے مضمون میں بیان کر چکا ہوں کہ میرا جی صدی کے آغاز سے پہلے ہی ان پر کام ہونا شروع ہو گیا تھا اور وہ کام بوجھ اتارنے والے انداز سے نہیں بلکہ سچے دل سے ہونے لگا تھا۔بس یہ کہ ہر کوئی اپنی اپنی استطاعت کے مطابق کام کر رہا تھا۔ظفر سید نامی بی بی سی کے صحافی کی تحقیق کی خامی ہے یا پھر علمی دیانت داری کے منافی عمل کہ وہ میرا جی پر ہونے والے اتنے سارے کام سے بے خبر ہیں۔اور جتنا باخبر ہیں،وہاں بھی ان کی ’’دیانت داری ‘‘کی انتہا ہے کہ صرف جرمنی کے ایک رسالہ کا ذکر کررہے ہیں۔ جدید ادب جرمنی کا نام لکھتے ہوئے ان کا قلبی و ذہنی انقباض دیدنی ہے۔ان کا یہ انقباض بجائے خود بہت کچھ کہہ رہا ہے۔صرف کراچی کی اردو کانفرنس والی بات بھی خلافِ واقعہ ہے۔میں سات تقریبات کا ذکر کرچکا ہوں۔ان میں سے امریکہ کی تقریب کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا،باقی چھ تقریبات تو سال ۲۰۱۲ء میں ہوچکی ہیں۔میراجی شناسی کے باب میں ڈاکٹروزیر آغا کے پانچ مضامین سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔صحافیانہ سطح کا کوئی جملہ لکھ کر کسی کے علمی و ادبی کام کو دھندلانااتنا آسان نہیں ہے۔بہتر ہوگا کہ ظفر سید کسی دوسرے نقاد کی راہ دیکھنے کی بجائے خود وہ کام کر دکھائیں ۔ان کی نیت مزید واضح ہو جائے گی۔جب وہ ان کی شخصیت کو نظر انداز کرکے ان کے فن کی طرف توجہ کریں گے تو شاید اپنی طرف سے کوئی کام کی بات بھی لکھ جائیں۔ابھی تک تو انہوں نے جو لکھا ہے ،ان میں سے ایک بھی علمی نکتہ ،کوئی کام کی بات ایسی نہیں جو جدید ادب جرمنی کے میرا جی نمبر سے نہ لی گئی ہو۔
ظفر سید کے مضمون کو مد نظر رکھتے ہوئے امید ہے کہ آئندہ بی بی سی کے فورم کو وہاں کے بعض صحافی حضرات اپنے کسی ذاتی تعصب کی بھینٹ نہیں چڑھائیں گے اور ادبی حقائق کو اتنا بری طرح مسخ نہیں کریں گے۔میرا جی شناسی کا مثبت اندازسامنے لایا جائے گا تو میرا جی کے چاہنے والے لازماََ خوش ہوں گے۔یہ ادبی دیانت داری بھی ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Saeed Shabab F/183 Mohalla Khokhran,Khanpur,Distt.Rahim yar Khan,Pakistan
e mail: saeedshabab@yahoo.com
مطبوعہ روزنامہ مقصد دہلی۔۲۸دسمبر ۲۰۱۲
 

روزنامہ نادیہ ٹائمز دہلی۔۲۸دسمبر ۲۰۱۲

http://www.urduhamasr.dk/dannews/index.php?mod=article&cat=Literature&article=944 
............................................................................
سعید شباب کے مضمون میں ظفر سید کے جس مضمون کا ذکر ہے 
وہ یہاں نیچے دیا جا رہا ہے۔
...................................................................


میرا جی: جنسی مریض یا جینئس؟

ظفر سید

دو ہزار دس فیض صدی تھی، دو ہزار گیارہ راشد صدی، دو ہزار بارہ منٹو صدی۔ اس دوران اردو کے ان گراں ڈیلوں پر درجنوں کتابیں تحقیقی و تنقیدی کتابیں چھاپی گئیں، پر مغز سیمینار اور کانفرنسیں منعقد کی گئیں، الیکٹرانک میڈیا نے خصوصی پروگرام ترتیب دیے، ادبی رسالوں نے خاص نمبر چھاپے۔

لیکن اس تمام ہاؤ ہو میں کسی کو ایک نام یاد ہی نہ رہا، یا اگر یاد بھی رہا تو محض سر سے بوجھ اتارنے کی مانند۔ وہ نام جس نے اردو میں جدیدیت کی داغ بیل ڈالی۔ جس نے کہنہ روایات کی برف کو توڑ کر راستا بنایا، جس نے جدید شاعروں کی ایک نسل کی آبیاری کی۔ یہ میرا جی ہیں، وہ میرا جی جو راشد سے زیادہ رواں، مجید امجد سے زیادہ جدید اور فیض سے زیادہ متنوع ہیں۔
اس سال کو منٹو صدی کے ساتھ ساتھ میرا جی صدی کے طور پر بھی منایا جانا چاہیے تھا کیوں کہ میرا جی اور سعادت حسن منٹو نہ صرف ایک ہی سال (1912) بلکہ ایک ہی مہینے (مئی) میں پیدا ہوئے تھے۔ لیکن سوائے جرمنی سے شائع ہونے والے ایک رسالے کے میرا جی نمبر، اور کراچی میں اردو کانفرنس کے ایک اجلاس کے علاوہ کہیں کچھ دیکھنے سننے یا پڑھنے میں نہیں آیا۔
اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا میرا جی کا فن اختر شیرانی کی طرح وہ خوش نظر بیل تھی جو دو دن بہارِ جاں فزا دکھلا گئی لیکن اس کے اندر دوام کے بیج نہیں تھے؟لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ میرا جی بہ ہر طور راشد، فیض اور مجید امجد کے ساتھ ساتھ جدید اردو شاعری کے ارکانِ اربعہ میں شمار ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بہت سے جدید شعرا کی جڑیں بھی میرا جی کے چھتنار کے اندر تلاش کی جا سکتی ہیں۔
میرا جی پر جنسی کج روئی، بے راہ روی اور مریضانہ شخصیت کے ایسے ایسے اشتہاری پوسٹر چسپاں کر دیے گئے کہ اصل میرا جی کے نقش و نگار کہیں چھپ کر رہ گئے۔ میرا جی کے نادان دوستوں اور بدخواہ حریفوں نے ان کی ذہنی و جسمانی غلاظتوں کے وہ خاکے اڑائے کہ انھیں عام انسانوں کی دنیا سے الگ تھلگ کوئی جناتی مخلوق بنا کر رکھ دیا۔ شہر کے لوگ تو ظالم تھے ہی، خود میرا جی کو بھی مرنے کا کچھ ایسا شوق تھا کہ وہ اپنے آپ کو اپنے گرد لپیٹے ہوئے خول کے اندر ہی محفوظ سمجھتے تھے۔ ان کا کہنا ہے:
دھرتی پوجا کی مثال؟
وزیر آغا نے میرا جی کو قدیم یونان کے کردار کی طرح ’دھرتی پوجا‘ کی چارپائی پر یوں لٹا دیا کہ اگر پاؤں لمبے پڑ گئے تو انھیں قطع کر دیا اور اگر چارپائی لمبی ہو گئی تو شاعر کو کھینچ کر لمبا کر دیا۔چند نصابی تحریروں سے قطع نظر اگر کسی نقاد نے میرا جی پر جم کے لکھا تو وہ وزیر آغا ہیں۔ لیکن انھوں نے میرا جی کو قدیم یونان کے کردار کی طرح ’دھرتی پوجا‘ کی چارپائی پر یوں لٹا دیا کہ اگر پاؤں لمبے پڑ گئے تو انھیں قطع کر دیا اور اگر چارپائی لمبی ہو گئی تو شاعر کو کھینچ کر لمبا کر دیا۔ گویا میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھو تھو۔
میرا جی پر سب سے بڑا الزام ابہام کا لگا۔ اس شاعری کو الجھی ہوئی شخصیت کا مظہر قرار دے کر اس پر انتشار اور پراگندگی کا ٹھپا تو لگا دیا گیا لیکن یہ سوچا ہی نہ گیا کہ ابہام تو اچھی شاعری کی روح ہوتا ہے۔ سیدھی سادی بات سے بڑا فن تخلیق نہیں کیا جا سکتا۔ غالب کہہ گئے ہیں کہ بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر۔ ویسے بھی بقول مشتاق یوسفی: جو شعر بیک وقت دو ہزار سامعینِ مشاعرہ کی سمجھ میں آ جائے وہ بڑا شعر نہیں ہو سکتا۔
چاہے خاکہ نگار کچھ بھی کہیں، شواہد بتاتے ہیں کہ میرا جی بے حد سلجھی ہوئی اور منظم شخصیت کے مالک تھے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ صرف 37 برس کی عمر میں وہ ایک نسل کے برابر کام چھوڑ گئے ہیں۔ ذرا اس’نفسیاتی مریض‘ کے کام پر ایک نظر دوڑائیے:
* 223 نظمیں، 136 گیت، 17 غزلیں، 23 مختلف زبانوں کے شعرا کے تراجم پر مبنی 225 نظمیں اور متفرق چیزیں
* تین برس ریڈیو پاکستان کی باقاعدہ ملازمت
* اپنے دور کے معروف ادبی رسالے ادبی دنیا کے نائب مدیر
* ماہنامہ خیال کے مدیر
* اردو تنقید میں پہلی بار نظموں کے تجزیوں کی کتاب ’اس نظم میں‘۔
* حلقہ اربابِ ذوق کی آبیاری، جلسوں میں بڑھ چڑھ کر شرکت اور جدید نظم نگاروں کی ایک نسل کی قیادت کیا یہ کام کوئی الجھا ہوا شخص کر سکتا ہے؟
میرا جی اپنے گیتوں، غزلوں، تراجم اور خاص کر تنقیدی مضامین میں کہیں بھی الجھے ہوئے نہیں لگتے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ منظوم تراجم سے زیادہ کوئی اور صنف ڈسپلن اور ضبطِ نفسی کی متقاضی نہیں ہوتی۔ میرا جی نے قدیم یونانی اور سنسکرت شعرا کے علاوہ بے حد مشکل علامت پسند فرانسیسی شعرا کے بھی کامیابی سے تراجم کیے ہیں۔ انھوں نے عمر خیام کی رباعیات کو جس سلیقے سے ہندوستانی چولا پہنچایا ہے وہ کسی اور کے بس کی بات نہیں تھی۔
پھر نظموں پر تنقید میں میرا جی جس قدر منطقی انداز میں خشت خشت اپنا استدلال قائم کرتے اور اپنا تھیسس قائم کرتے چلے جاتے ہیں وہ کسی پراگندہ ذہن کا کام نہیں ہو سکتا۔
تو پھر کیا بات ہے کہ وہ شخص جو اپنی غزلوں، گیتوں، مضامین اور منظوم تراجم میں بے حد یکسو ہے، اس کی نظمیں اس قدر منتشر ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں ہم میرا جی کے نظری شعر ہی کو سمجھنے کی غلطی کر رہے ہیں؟
میرا جی کے اسلوب کی سب سے ظاہری پرت ان کی زبان ہے۔ جہاں راشد اور فیض جدید ہوتے ہوئے بھی قدیم زبان اوراسالیب کی خوشہ چینی سے دامن نہ بچا سکے، وہیں میرا جی نے پوری دلجمعی سے سادہ اور سلیس پیرایہ اختیار کیا۔ اہم بات یہ ہے کہ جدید نظم کا جو چشمہ پھوٹ کر آگے چل کر دریا بنا، اس نے راشد و فیض کو ترک کر کے میرا جی ہی کی زبان اختیار کی۔
میرا جی مغربی ادب کے ذہین اور مشتاق قاری تھے۔ انھوں نے وہاں سے ایک چیز جو بطورِ خاص برآمد کی وہ شعور کی رو کی تکنیک ہے۔ شعور کی رو انیسویں صدی کے یورپ میں وضع کی جانے والی وہ تکنیک ہے جس میں مصنف قاری کو اپنے ذہن تک براہِ راست رسائی کا موقع دے کر تخلیقی عمل میں شریک کر لیتا ہے۔ اس میں خیالات کی گاڑی کبھی بھی معنی کے انجن کے پیچھے پیچھے افق میں گم ہوتی ہوئی سیدھی پٹری پر نہیں چلتی بلکہ ڈبے ایک دوسرے کو ٹکر مارتے، الٹتے، گرتے ہیں، اور ٹیڑھی میڑھی پٹریاں ہاتھوں کی لکیروں کی طرح ایک دوسری کو کاٹتی، اوورٹیک کرتی ہوئی، یا گراموفون کی اٹکی سوئی کی طرح اپنے آپ کو دہرائے چلی جاتی ہیں۔
میرا جی نے یقیناً ٹی ایس ایلیٹ اور جیمز جوئس وغیرہ کے ہاں شعور کی رو کے تجربات دیکھے ہوں گے۔ بلکہ انہوں نے اسی تکنیک میں لکھی گئی ایلیٹ کے شہرہ آفاق نظم ’لَو سانگ آف جے الفرڈ پروفراک‘ سے کسی حد تک متاثر ہو کر اپنی نظم ’ کلرک کا نغمہ محبت‘ لکھی تھی۔
میرا جی کی اکثر’الجھی‘ ہوئی نظمیں شعور کی رو کی تکنیک میں لکھی ہوئی ہیں، جس میں ادیب قاری کو اپنے ذہن تک رسائی دیتا ہے۔ لیکن کیسا ذہن؟ میرا جی کا ذہن؟ اسی میرا جی کا ذہن جو کج روی، کج مزاجی، انتشار، اور پراگندگی کا منھ بولتا اشتہار ہے؟
میرا جی کا نام آتے وقت ذہن میں ان کی ایک تصویر آتی ہے: جٹادھاری زلفیں، کانوں میں بڑے بڑے بالے، نوکیلی گھنی مونچھیں، اور دور کہیں گھورتی ہوئی آنکھیں۔ لیکن ستم یہ ہے کہ یہ تصویر بھی اصل میرا جی کی نہیں ہے بلکہ انھوں نے ایک فلم میں سادھو کا کردار ادا کیا تھا، یہ اس کردار کی تصویر ہے۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ میرا جی اپنی اصل زندگی میں بھی کوئی کردار ادا کر رہے تھے؟
اردو کے سب سے بڑے نقاد محمد حسن عسکری میرا جی کے میرا سین سے عشق کے بارے میں لکھتے ہیں کہ جب میرا جی کے دوستوں نے انھیں افسانہ بنانا چاہا تو بے تامل بن گئے۔ اس کے بعد ان کی زندگی اس افسانے کو نبھاتے گزری۔
اس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ میراجی نے اپنی ظاہری شخصیت پر ملمع چڑھایا ہوا تھا۔ صرف ان کے بہت قریبی گنے چنے دوست ہی ان تہوں کو کاٹ کر ان کی شخصیت تک رسائی حاصل کر سکتے تھے۔ یہی ملمع ان کی نظموں میں بھی ملتا ہے، جو بظاہر بے ربط، منتشر، اور پراگندہ نظر آتی ہیں، لیکن اگر کوئی تہوں کو چیر کو اندر جھانکے تو اسے اصل نظم اپنا منھ دکھائے گی۔ ان کی نظمیں دانستہ یا نادانستہ طور پر ایسا تاثر دیتی ہیں جیسے ان میں ربط کی کمی ہے، لیکن وہ اصل میں زیریں سطح پر بے حد چست اور گٹھی ہوئی ہوتی ہیں۔
جیسے میراجی اپنی ہیئت کذائی کی وجہ سے ہر کس و ناکس کو اپنے قریب پھٹکنے نہیں دیتے تھے، ویسے ہی کہا جا سکتا ہے کہ ان کی نظم بھی توجہ، محبت، اور احتیاط کے بغیر کسی کو اپنا دامن پکڑنے نہیں دیتی۔اپنی موت کے 65 سال بعد بھی میرا جی کی شاعری کو اس نقاد کی تلاش ہے جو آہنی گولوں، فوجی کوٹوں، جٹادھاری زلفوں اور رنگ برنگی مالاؤں کو ہٹا کر اصل میراجی کو سامنے لا سکے۔
............................................
     مطبوعہ بی بی سی کی ویب سائٹ ۔۲۵؍دسمبر ۲۰۱۲ء
روزنامہ ہمارا مقصد دہلی۔۲۷ دسمبر ۲۰۱۲ء
 روزنامہ نادیہ ٹائمز دہلی۔۲۸دسمبر ۲۰۱۲ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس مضمون کا جواب ڈنمارک سے شائع ہونے والی نہایت معیاری اور دیدہ زیب ویب سائٹ اردو ہم عصر کے اس لنک پر بھی مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
http://www.urduhamasr.dk/dannews/index.php?mod=article&cat=Literature&article=944 
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::: 

Smooth sailing for Urdu literature in 2012

 By Rauf Parekh

Karachi Arts Council`s Urdu Conference also devoted sessions to Manto and Miraji. Jadeed Adab, a literary journal edited by Hyder Qureshi and published from Germany, brought out a bulky special issue on Miraji.A very special feature of this issue was a section comprising the translations of Miraji`s poems into English, German, Russian, Dutch, Italian, Arabic, Turkish and Persian and that too in original scripts.


Smooth sailing for Urdu literature in 2012 By Rauf Parekh
Daily DAWN 14.01.2013
http://epaper.dawn.com/~epaper/DetailImage.php?StoryImage=14_01_2013_1
...................................................................

MEERA JI KI GHAZAL
NAGRI NAGRI PHIRA MUSAFIR GHAR KA RASTA BHOOL GIA
SUNG BY : GHULAM ALI


:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::


 

Montag, 10. Dezember 2012

کراچی کی اردو کانفرنس میں میرا جی سیشن


کراچی کی اردو کانفرنس میں
  میرا جی  سیشن
کراچی میں حال ہی میں ایک اردو کانفرنس ہوئی ہے۔اس میں میرا جی کے حوالے سے ایک سیشن رکھا گیا تھا۔اس کی جو خبر اور رپورٹ شائع ہوئی ہے،یہاں پیش کر رہا ہوں۔ایک روزنامہ جنگ کی شائع کردہ خبر ہے۔ جبکہ دوسری بی بی سی کی رپورٹ ہے ...مختلف اخبارات میں بعض کالم نگاروں نے اس سیشن کا جو ذکر کیا ہے،اسے بھی یہاں شامل کیا جا رہا ہے۔ 
حیدر قریشی
 :::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
Daily Jang ki Khabar
میرا جی اپنے دور میں ایک نئی دنیا کا خواب
دیکھ رہے تھے، شمیم حنفی
 
کراچی (رپورٹ اختر علی)۔

بھارت سے تشریف لائے ہوئے ممتاز ادیب، دانشور پروفیسر ڈاکٹر شمیم حنفی نے کہا ہے میرا جی اپنے دور میں نئی دنیا کا خواب دیکھ رہے تھے۔ وہ ن م راشد اور فیض احمد فیض سے بھی پوری طرح آگا ہ تھے۔ انہیں مشرق اور مغرب میں یکساں مقبولیت حاصل تھی۔ میرا جی کو یاد کرنا سب سے سنجیدہ مرحلہ ہے اور وہ میرے نزدیک سب سے سنجیدہ شاعر تھے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے پانچویں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز اپنے مقالہ ’’ میرا جی۔ مشرق اور مغرب کا نقاد‘‘ پیش کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ فیض اور میرا جی کی شاعری اس دورکے سماجی،معاشرتی اور روحانی زندگی کے ہر رخ کو دکھاتی ہے۔ ان تینوں میں سے کسی کو بھی ہٹا کرنہیں دیکھا جا سکتا ،ان میں سے ہر ایک نے زندگی اور وقت کے بھید کو اپنے اپنے انداز میں دریافت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر شمیم حنفی کا کہنا ہے کہ میرا جی نے سر پرمنڈلاتی ہوئی موت کو اطمینان سے قبول کر لیا تھا۔ ن م راشد کے نزدیک۔ میرا جی ان کے معاصرین میں سب سے بڑا تخلیقی دماغ رکھتے تھے۔ میرا جی ایک جیتا جاگتا افسانہ بن گئے تھے، وہ جانتے تھے کہ زندگی چاہے زندگی نہ بنے لیکن افسانہ ضرور بن جائے گی۔ کئی معلومات میں میرا جی کی شاعری کو ٹیگور کے برابر قرار دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا فکری طور پر میرا جی کی نثر بھی سب سے مختلف تھی، میرا جی معلوم سے زیادہ نا معلوم کے سفر پر نکلنا پسند کرتے تھے۔ معروف ادیب اور صحافی وسعت اللہ خان نے اپنے موضوع ’’. میرا جی آج‘‘ میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ میرا جی کا کلام آج بھی کل کی طرح بے حد مقبول ہے۔

ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے اپنے موضوع ’’ میرا جی کے تراجم‘‘کے سلسلے میں کہا کہ ہماری تنقید اتنی بالغ نہیں ہوئی کہ میرا جی کے جہان کی مکمل طور پر سیر کر سکے، میرا جی نے حلقۂ اربابِ ذوق کی مزاج سازی کی لیکن حلقۂ اربابِ ذوق نے ان کے خدمات کا بھر پور اعتراف نہیں کیا۔ میرا جی نے جس طرح نئی شاعری کی ابتدا کی اسی طرح نثر اور ترجمہ نگاری
میں ایک آواں گارد کا کردار ادا کیا۔میرا جی نے اپنے تراجم سے اپنے عہد کے ادبی کینن کو تبدیل کیا،جب چند انگریز رومانونی شعرا کے ترجمے کیے جارہے تھے،میرا جی نے فرانسیسی،جرمن،اطالوی،چینی،جاپانی،بنگالی،سنسکرت ،آئرش،امریکی،ایرانی،روسی زبانوں کے شعرا کے ترجمے کیے۔

ممتاز شاعرہ ڈاکٹر پرو فیسر شاہدہ حسن نے اپنے موضوع ’’. میرا جی کی گیت نگاری‘‘ میں کہا کہ ان کا شعری سفر در اصل اپنے اندر چھپے ہوئے آدمی کی تلاش اور دریافت ہے۔ انہوں نے شہر ادب میں سب سے انوکھی دکان کھولی تھی۔ میرا جی نے اپنی زندگی کے چراغ کی بتی کو دونوں سروں سے جلا رکھا تھا۔انہوں نے کہا کہ شخصیت کی یہ برہمی اور بکھراؤ در اصل اس دور کا احتجاج تھا ، گیت کی ریت سب سے پہلے آواز بنی، آواز سروں میں ڈھلی، بول راگ میں ڈھلی اور یہ راگ گیت بن گئے۔ ممتاز شاعرہ فہمیدہ ریاض نے اپنے موضوع ’’ میرا جی کی جمالیات‘‘ میں اظہارِ خیال کیا کہ فرانسیسی مصنف ژولیان نے اردو میں کتاب لکھی۔ ژولیان نے منٹو کے مضمون ’’ 3 گولے کا حوالہ دیا۔ منٹو کی بات’’ اس کو دیکھ کر اس کی شاعری میرے لئے اور پیچیدہ ہو گئی‘‘۔ ان کا کہنا ہے کہ میرا جی کی شاعری بہت ذہین اور اعلیٰ ذوق کے افراد ہی سمجھ سکتے ہیں لیکن ان کے درمیان ان کی شخصیت اور ’’ تین گولے آتے جاتے ہیں ‘‘۔ منٹو کہتے ہیں، حسن، عشق اور موت کے درمیان میرا جی کا رخ نوکیل نہیں تھا بلکہ زندگی اور موت کا لباس تھا اور دونوں سروں کو تھامے ہوئے تھا۔ منٹو کہتے ہیں میرا جی کی شاعری میں کہیں مایوسی اور سو قیت دکھا ئی نہیں دیتی، اداسی اور گہری اداسی ضرور نظر آتی ہے اور اس میں بھی گہرا جمال ہے۔ آخر میں صدر محفل ممتاز شاعرہ کشور ناہید نے مختصر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اگر میرا جی کے بارے میں بہت سارا جاننا چاہتے ہیں تو ’’ اختر الامان
کی یاداشتیں‘‘ ضرور پڑھ لیں جو اس کے آخری وقتوں کے ساتھی تھے۔ نظامت کے فرائض علی حیدر ملک نے سر انجام دئے۔
روزنامہ جنگ انٹرنیٹ ایڈیشن۔تازہ ترین۔۸؍دسمبر۲۰۱۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
BBC urdu ki website ki Report
آخری وقت اشاعت:  ہفتہ 8 دسمبر 2012 ,‭ 13:04 GMT 18:04 PST

اس اجلاس کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر شمیم حنفی نے کی اور ان کے علاوہ، مسعود اشعر، فہمیدہ ریاض، ناصر عباس نیّر، شاہدہ حسن اور وسعت اللہ خان نے میرا جی پر بات کی۔
صدر الصدود ممتاز شاعرہ کشور ناہید نے مختصر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اگر میرا جی کے بارے میں بہت زیادہ جاننا چاہتے ہو تو ’اخترالایمان کی یاد داشتیں‘ ضرور پڑھ لیں جو ان کے آخری وقتوں کے ساتھی تھے۔ اور ان کا ذکر میرا سین کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔
ان سے پہلے شمیم حنفی نے کہا کہ میرا جی اپنے دور میں ایک نئی دنیا کا خواب دیکھ رہے تھے اور ن م راشد اور فیض احمد فیض اس بات سے پوری طرح آگاہ تھے۔ انہیں مشرق اور مغرب کو جس گہرائی اور وسعت سے دیکھا وہ کسی اور میں دکھائی نہیں دیتی۔ میرا جی کو یاد کرنا سب سے سنجیدہ معاملہ ہے اور میرے نزدیک وہ سب سے زیادہ سنجیدہ شاعر تھے۔ انھوں نے کہا کہ میر اجی نے سر پر منڈلاتی ہوئی موت کو اطمینان سے قبول کر لیا تھا۔ن م راشد کے نزدیک میرا جی ان کے معا صرین میں سب سے بڑا تخلیقی دماغ رکھتے تھے۔ میرا جی ایک جیتا جاگتا افسانہ بن گئے تھے۔
ممتاز شاعرہ فہمیدہ ریاض نے ’میرا جی کی جمالیات‘ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فرانسیسی نژاد جولیان نے میرا جی پر اردو میں جو کتاب لکھی ہے اس میں وہ میرا جی کو بالکل بھی نہیں سمجھ سکے۔ معاملہ یہ ہے کہ میرا جی شخصیت پر زیادہ بات ہوتی ہے اور شاعری پر کم۔ میرا جی کی شاعری سمجھنے کے لیے بہت ذہین اور اعلٰی ذوق کی ضرورت ہے۔ ان کی شاعری کو سمجھنے میں ان کے تین گولے آڑے آ جاتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ انھیں میرا جی کی شاعری میں کہیں مایوسی اورسوقیت دکھائی نہیں دیتی۔ ہاں اداسی اور گہری اداسی ضرور نظر آئی ہے اور اس میں بھی گہرا جمال ہے۔
ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے اپنے موضوع ’میرا جی کے تراجم‘ میں کہا کہ ہماری تنقید اتنی بالغ نہیں ہوئی کہ میرا جی کی شاعری کے جہان کی مکمل طور پر سیر کر سکے۔ میرا جی نے حلقۂ ارباب ذوق کی مزاج سازی کی لیکن وہی حلقۂ ارباب اب ان سے آشنا نہیں اور نہ ہی ان کی خدمات کا وہ اعتراف کرتا ہے جس کا حق بنتا ہے۔ انھوں جیسے نظمِ آزاد کی ابتدا کی اسی طرح نثر میں بھی بنیادی آدمی ہیں۔ مشرق و مغرب کے نغمے کے مضامین انھوں نے جس عمر میں لکھے اس پر حیرت ہوتی ہے۔ پھر ان کے تراجم جو متن کو ایک نئی زبان فراہم کرتے ہیں۔
ممتاز شاعرہ شاہدہ حسن نے ’میرا جی کی گیت نگاری‘ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ میرا جی کی شاعری دراصل میں اپنے اندر چھپے ہوئے آدمی کی تلاش اور دریافت ہے۔ انہوں نے شعرِ ادب میں سب سے انوکھی دکان کھولی تھی۔ میرا جی نے اپنی زندگی کے چراغ کی بتی کو دونوں سروں سے جلا رکھا تھا۔ شخصیت کی یہ برہمی اور بکھراؤ دراصل اس دور کا احتجاج تھا۔گیت کی ریت سب سے پہلے آواز بنی آواز سروں میں ڈھلی بول راگ میں ڈھلی اور یہ راگ گیت بن گئے۔
معروف ادیب اور صحافی وسعت اللہ خان نے ’میرا جی آج‘ کے عنوان سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میرا جی کا کلام آج بھی کل کی طرح بے حد اہم ہے۔ ان کا کہنا تھا اگر یہ کہا جائے کہ میراجی ایک ذہنی مریض تھا، نرگسیت کا مارا ہوا تھا، بہروپیا تھا، جنسی کجروی کا شکار تھا، سستی توجہ حاصل کرنے کے لیے، مرکزِ نگاہ بننے کے لیے کچھ بھی کر سکتا تھا تو، بارہ مہینے گرم کوٹ پہنے، کانوں میں بالیں ڈالے، ساھووں سی مالائیں پہنے، نہانے دھونے سے لاپروا، میلے ہاتھوں میں تین چمکدار گولے دبائے کہیں بھی پڑا رہ سکتا توُ ممبئی کے ایک گمنام اسپتال میں حقیقت سے زیادہ مرنے کی حقیقی اداکاری کر سکتا تھا۔ یہ سب باتیں صحیح ہیں لیکن وہ میرا جی تھا، وہ میرا جی جس تک پہنچنے کے ان سب سے گذرنا پڑتا ہے اور وہی گذرتے ہیں جو ان تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ یا جن میں اس کی صلاحیت ہوتی ہے۔
اس اجلاس کی نظامت کے فرائض علی حیدر ملک نے انجام دیے۔
..................................................

 چشمِ تماشا : امجد اسلام امجد
کراچی آرٹس کونسل کی ادبی کانفرنس

شاید بہت کم قارئین کے علم میں یہ بات ہو کہ ثناء اللہ ڈار المعروف میرا جی نے صرف ساڑھے سینتیس برس کی عمر پائی تھی اور یہ کہ2 3 برس کی عمر تک وہ شاعری‘ تراجم اور تنقید کے اصناف میں اس قدر اعلیٰ معیاری اور غیر روایتی ادب تخلیق کر چکے تھے کہ جس کی مثال اردو بھی کیا دنیا کی دیگر ترقی یافتہ زبانوں میں بھی کم کم ہی مل پائے گی۔ میں ان کی ایک تنقیدی کتاب ’’مشرق و مغرب کے نغمے‘‘ کی نثر اور تنقیدی بصیرت کا اپنی طالب علمی کے دنوں سے قائل اور گھائل ہوں مگر ان سے متعلق خصوصی نشست میں یہ جان کر میری گرویدگی میں مزید اضافہ ہوا کہ یہ مضامین انھوں نے اپنی محدود تعلیم کے باوجود اس عمر میں لکھے تھے جب ہمارے بیشتر نقاد ان ’’نغمہ گروں‘‘ کے کام تو کیا نام تک سے واقف اور آشنا نہیں ہوتے۔

یوں تو اس نشست میں صدر محفل کشور ناہید کے علاوہ ڈاکٹر شمیم حنفی، مسعود اشعر، فہمیدہ ریاض، شاہدہ حسن، ڈاکٹر ناصر عباس نیئر اور وسعت اللہ خان سب ہی نے (کمپیئر علی حیدر ملک سمیت) میرا جی کے بارے میں بہت اچھی گہری، نئی، خیال انگیز اور فکر افروز باتیں کیں لیکن مجھے ذاتی طور پر وسعت اللہ خان کا مقالہ سب سے زیادہ پسند آیا کہ انھوں نے بڑے لطیف اور نیم طنزیہ پیرائے میں میرا جی کی شخصیت‘ کام اور ان کے دور کی ادبی فضا کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا کہ حقیقت افسانہ اور ڈراما کچھ دیر کے لیے یکجان سے ہو گئے۔
...............................
کالم مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس۔۹؍دسمبر ۲۰۱۲ء 
سے متعلقہ اقتباس

.............................................
میرا جی اورمنٹو  

 کالم مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس
بدھ 12 دسمبر 2012
سے متعلقہ اقتباس

منٹو اور میرا جی کے حوالے سے منائی جانے والی عالمی اردو کانفرنس میں بات تو دونوں پر ہوئی، لیکن داد و تحسین جتنی منٹو کو ملی اتنی بے چارے میرا جی کے حصے میں نہ آئی۔ وہ تو بھلا ہو محترم انتظار حسین کا کہ انھوں نے اپنے کالم کے ذریعے یاد دلایا کہ منٹو کو تو یاد کرتے ہو لیکن میرا جی کو کیوں بھول جاتے ہو کہ اس کا سال بھی 2012 ہی ہے۔ تب کراچی آرٹس کونسل نے فوراً ہی میرا جی کو یاد کرنے کا بھی اہتمام کرلیا۔ ایک اور ستم ظریفی ملاحظہ ہو جو میرا جی کے حصے میں آئی وہ یہ کہ وسعت اللہ خان نے بتایا کہ انھوں نے میرا جی کے بارے میں انٹرنیٹ سے معلومات چاہیں تو جواب آیا، اداکارہ میرا کے بارے میں اور ہدایت کارہ میرا نائر کے متعلق۔
پھر انھوں نے میرا جی کو ان کے اصلی نام سے ڈھونڈا یعنی ثناء اللہ ڈار، تو تفصیلات موصول ہوئیں پنجاب کے وزیر قانون رانا  ثناء اللہ کی۔ یہ ایک المیہ ہے کہ میرا جی کو جی بھر کے نہ صرف نظر انداز کیا گیا بلکہ اس پر مضامین کے ذریعے بڑے نام نہاد لوگوں نے تبرّے بازی بھی کی اور خود کو غالبؔ سے بڑا شاعر بھی تسلیم کرلیا۔ ایک المیہ ہمارے ادب کا یہ بھی ہے کہ ادیب، شاعر یا کسی بھی تخلیق کار اور فنکار کی زندگی اور اس کے فن کو گڈ مڈ کر دیتے ہیں۔ عام طور پر زندگی فن پر حاوی ہوجاتی ہے اور تخلیق کار کی بہت ساری صفات کو اس کی بے ترتیب زندگی کا کفن پہنا کر دفنا دیا جاتا ہے۔ میرا جی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اس موقع پر کشور ناہید صاحبہ نے ایک بڑی اچھی بات کہی کہ میرا جی پر مضامین پڑھنے والوں نے اس میرا سین کا بالکل ذکر نہ کیا جس کی وجہ سے ثناء اللہ ڈار میرا جی بن گیا۔ ساتھ ہی انھوں نے اختر الایمان کی یاد داشتوں پر مشتمل کتاب ’’اس آباد خرابے میں‘‘ کی طرف بھی توجہ دلائی جس میں میرا جی کی زندگی کے آخری دنوں کا احوال موجود ہے۔ کیونکہ وہی ایک شخص تھے جو ان کے ساتھ رہے اور انھوں نے ہی میرا جی کو ایک خیراتی اسپتال میں داخل کرا دیا تھا۔ تیسری بات کشور ناہید نے گیتا پٹیل کے بارے میں کی اور کہا کہ میرا جی کو سمجھنے کے لیے گیتا پٹیل کی کتاب پڑھنا بہت ضروری ہے۔
..........................................................