Montag, 10. Dezember 2012

کراچی کی اردو کانفرنس میں میرا جی سیشن


کراچی کی اردو کانفرنس میں
  میرا جی  سیشن
کراچی میں حال ہی میں ایک اردو کانفرنس ہوئی ہے۔اس میں میرا جی کے حوالے سے ایک سیشن رکھا گیا تھا۔اس کی جو خبر اور رپورٹ شائع ہوئی ہے،یہاں پیش کر رہا ہوں۔ایک روزنامہ جنگ کی شائع کردہ خبر ہے۔ جبکہ دوسری بی بی سی کی رپورٹ ہے ...مختلف اخبارات میں بعض کالم نگاروں نے اس سیشن کا جو ذکر کیا ہے،اسے بھی یہاں شامل کیا جا رہا ہے۔ 
حیدر قریشی
 :::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
Daily Jang ki Khabar
میرا جی اپنے دور میں ایک نئی دنیا کا خواب
دیکھ رہے تھے، شمیم حنفی
 
کراچی (رپورٹ اختر علی)۔

بھارت سے تشریف لائے ہوئے ممتاز ادیب، دانشور پروفیسر ڈاکٹر شمیم حنفی نے کہا ہے میرا جی اپنے دور میں نئی دنیا کا خواب دیکھ رہے تھے۔ وہ ن م راشد اور فیض احمد فیض سے بھی پوری طرح آگا ہ تھے۔ انہیں مشرق اور مغرب میں یکساں مقبولیت حاصل تھی۔ میرا جی کو یاد کرنا سب سے سنجیدہ مرحلہ ہے اور وہ میرے نزدیک سب سے سنجیدہ شاعر تھے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے پانچویں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز اپنے مقالہ ’’ میرا جی۔ مشرق اور مغرب کا نقاد‘‘ پیش کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ فیض اور میرا جی کی شاعری اس دورکے سماجی،معاشرتی اور روحانی زندگی کے ہر رخ کو دکھاتی ہے۔ ان تینوں میں سے کسی کو بھی ہٹا کرنہیں دیکھا جا سکتا ،ان میں سے ہر ایک نے زندگی اور وقت کے بھید کو اپنے اپنے انداز میں دریافت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر شمیم حنفی کا کہنا ہے کہ میرا جی نے سر پرمنڈلاتی ہوئی موت کو اطمینان سے قبول کر لیا تھا۔ ن م راشد کے نزدیک۔ میرا جی ان کے معاصرین میں سب سے بڑا تخلیقی دماغ رکھتے تھے۔ میرا جی ایک جیتا جاگتا افسانہ بن گئے تھے، وہ جانتے تھے کہ زندگی چاہے زندگی نہ بنے لیکن افسانہ ضرور بن جائے گی۔ کئی معلومات میں میرا جی کی شاعری کو ٹیگور کے برابر قرار دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا فکری طور پر میرا جی کی نثر بھی سب سے مختلف تھی، میرا جی معلوم سے زیادہ نا معلوم کے سفر پر نکلنا پسند کرتے تھے۔ معروف ادیب اور صحافی وسعت اللہ خان نے اپنے موضوع ’’. میرا جی آج‘‘ میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ میرا جی کا کلام آج بھی کل کی طرح بے حد مقبول ہے۔

ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے اپنے موضوع ’’ میرا جی کے تراجم‘‘کے سلسلے میں کہا کہ ہماری تنقید اتنی بالغ نہیں ہوئی کہ میرا جی کے جہان کی مکمل طور پر سیر کر سکے، میرا جی نے حلقۂ اربابِ ذوق کی مزاج سازی کی لیکن حلقۂ اربابِ ذوق نے ان کے خدمات کا بھر پور اعتراف نہیں کیا۔ میرا جی نے جس طرح نئی شاعری کی ابتدا کی اسی طرح نثر اور ترجمہ نگاری
میں ایک آواں گارد کا کردار ادا کیا۔میرا جی نے اپنے تراجم سے اپنے عہد کے ادبی کینن کو تبدیل کیا،جب چند انگریز رومانونی شعرا کے ترجمے کیے جارہے تھے،میرا جی نے فرانسیسی،جرمن،اطالوی،چینی،جاپانی،بنگالی،سنسکرت ،آئرش،امریکی،ایرانی،روسی زبانوں کے شعرا کے ترجمے کیے۔

ممتاز شاعرہ ڈاکٹر پرو فیسر شاہدہ حسن نے اپنے موضوع ’’. میرا جی کی گیت نگاری‘‘ میں کہا کہ ان کا شعری سفر در اصل اپنے اندر چھپے ہوئے آدمی کی تلاش اور دریافت ہے۔ انہوں نے شہر ادب میں سب سے انوکھی دکان کھولی تھی۔ میرا جی نے اپنی زندگی کے چراغ کی بتی کو دونوں سروں سے جلا رکھا تھا۔انہوں نے کہا کہ شخصیت کی یہ برہمی اور بکھراؤ در اصل اس دور کا احتجاج تھا ، گیت کی ریت سب سے پہلے آواز بنی، آواز سروں میں ڈھلی، بول راگ میں ڈھلی اور یہ راگ گیت بن گئے۔ ممتاز شاعرہ فہمیدہ ریاض نے اپنے موضوع ’’ میرا جی کی جمالیات‘‘ میں اظہارِ خیال کیا کہ فرانسیسی مصنف ژولیان نے اردو میں کتاب لکھی۔ ژولیان نے منٹو کے مضمون ’’ 3 گولے کا حوالہ دیا۔ منٹو کی بات’’ اس کو دیکھ کر اس کی شاعری میرے لئے اور پیچیدہ ہو گئی‘‘۔ ان کا کہنا ہے کہ میرا جی کی شاعری بہت ذہین اور اعلیٰ ذوق کے افراد ہی سمجھ سکتے ہیں لیکن ان کے درمیان ان کی شخصیت اور ’’ تین گولے آتے جاتے ہیں ‘‘۔ منٹو کہتے ہیں، حسن، عشق اور موت کے درمیان میرا جی کا رخ نوکیل نہیں تھا بلکہ زندگی اور موت کا لباس تھا اور دونوں سروں کو تھامے ہوئے تھا۔ منٹو کہتے ہیں میرا جی کی شاعری میں کہیں مایوسی اور سو قیت دکھا ئی نہیں دیتی، اداسی اور گہری اداسی ضرور نظر آتی ہے اور اس میں بھی گہرا جمال ہے۔ آخر میں صدر محفل ممتاز شاعرہ کشور ناہید نے مختصر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اگر میرا جی کے بارے میں بہت سارا جاننا چاہتے ہیں تو ’’ اختر الامان
کی یاداشتیں‘‘ ضرور پڑھ لیں جو اس کے آخری وقتوں کے ساتھی تھے۔ نظامت کے فرائض علی حیدر ملک نے سر انجام دئے۔
روزنامہ جنگ انٹرنیٹ ایڈیشن۔تازہ ترین۔۸؍دسمبر۲۰۱۲ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
BBC urdu ki website ki Report
آخری وقت اشاعت:  ہفتہ 8 دسمبر 2012 ,‭ 13:04 GMT 18:04 PST

اس اجلاس کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر شمیم حنفی نے کی اور ان کے علاوہ، مسعود اشعر، فہمیدہ ریاض، ناصر عباس نیّر، شاہدہ حسن اور وسعت اللہ خان نے میرا جی پر بات کی۔
صدر الصدود ممتاز شاعرہ کشور ناہید نے مختصر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اگر میرا جی کے بارے میں بہت زیادہ جاننا چاہتے ہو تو ’اخترالایمان کی یاد داشتیں‘ ضرور پڑھ لیں جو ان کے آخری وقتوں کے ساتھی تھے۔ اور ان کا ذکر میرا سین کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔
ان سے پہلے شمیم حنفی نے کہا کہ میرا جی اپنے دور میں ایک نئی دنیا کا خواب دیکھ رہے تھے اور ن م راشد اور فیض احمد فیض اس بات سے پوری طرح آگاہ تھے۔ انہیں مشرق اور مغرب کو جس گہرائی اور وسعت سے دیکھا وہ کسی اور میں دکھائی نہیں دیتی۔ میرا جی کو یاد کرنا سب سے سنجیدہ معاملہ ہے اور میرے نزدیک وہ سب سے زیادہ سنجیدہ شاعر تھے۔ انھوں نے کہا کہ میر اجی نے سر پر منڈلاتی ہوئی موت کو اطمینان سے قبول کر لیا تھا۔ن م راشد کے نزدیک میرا جی ان کے معا صرین میں سب سے بڑا تخلیقی دماغ رکھتے تھے۔ میرا جی ایک جیتا جاگتا افسانہ بن گئے تھے۔
ممتاز شاعرہ فہمیدہ ریاض نے ’میرا جی کی جمالیات‘ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فرانسیسی نژاد جولیان نے میرا جی پر اردو میں جو کتاب لکھی ہے اس میں وہ میرا جی کو بالکل بھی نہیں سمجھ سکے۔ معاملہ یہ ہے کہ میرا جی شخصیت پر زیادہ بات ہوتی ہے اور شاعری پر کم۔ میرا جی کی شاعری سمجھنے کے لیے بہت ذہین اور اعلٰی ذوق کی ضرورت ہے۔ ان کی شاعری کو سمجھنے میں ان کے تین گولے آڑے آ جاتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ انھیں میرا جی کی شاعری میں کہیں مایوسی اورسوقیت دکھائی نہیں دیتی۔ ہاں اداسی اور گہری اداسی ضرور نظر آئی ہے اور اس میں بھی گہرا جمال ہے۔
ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے اپنے موضوع ’میرا جی کے تراجم‘ میں کہا کہ ہماری تنقید اتنی بالغ نہیں ہوئی کہ میرا جی کی شاعری کے جہان کی مکمل طور پر سیر کر سکے۔ میرا جی نے حلقۂ ارباب ذوق کی مزاج سازی کی لیکن وہی حلقۂ ارباب اب ان سے آشنا نہیں اور نہ ہی ان کی خدمات کا وہ اعتراف کرتا ہے جس کا حق بنتا ہے۔ انھوں جیسے نظمِ آزاد کی ابتدا کی اسی طرح نثر میں بھی بنیادی آدمی ہیں۔ مشرق و مغرب کے نغمے کے مضامین انھوں نے جس عمر میں لکھے اس پر حیرت ہوتی ہے۔ پھر ان کے تراجم جو متن کو ایک نئی زبان فراہم کرتے ہیں۔
ممتاز شاعرہ شاہدہ حسن نے ’میرا جی کی گیت نگاری‘ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ میرا جی کی شاعری دراصل میں اپنے اندر چھپے ہوئے آدمی کی تلاش اور دریافت ہے۔ انہوں نے شعرِ ادب میں سب سے انوکھی دکان کھولی تھی۔ میرا جی نے اپنی زندگی کے چراغ کی بتی کو دونوں سروں سے جلا رکھا تھا۔ شخصیت کی یہ برہمی اور بکھراؤ دراصل اس دور کا احتجاج تھا۔گیت کی ریت سب سے پہلے آواز بنی آواز سروں میں ڈھلی بول راگ میں ڈھلی اور یہ راگ گیت بن گئے۔
معروف ادیب اور صحافی وسعت اللہ خان نے ’میرا جی آج‘ کے عنوان سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میرا جی کا کلام آج بھی کل کی طرح بے حد اہم ہے۔ ان کا کہنا تھا اگر یہ کہا جائے کہ میراجی ایک ذہنی مریض تھا، نرگسیت کا مارا ہوا تھا، بہروپیا تھا، جنسی کجروی کا شکار تھا، سستی توجہ حاصل کرنے کے لیے، مرکزِ نگاہ بننے کے لیے کچھ بھی کر سکتا تھا تو، بارہ مہینے گرم کوٹ پہنے، کانوں میں بالیں ڈالے، ساھووں سی مالائیں پہنے، نہانے دھونے سے لاپروا، میلے ہاتھوں میں تین چمکدار گولے دبائے کہیں بھی پڑا رہ سکتا توُ ممبئی کے ایک گمنام اسپتال میں حقیقت سے زیادہ مرنے کی حقیقی اداکاری کر سکتا تھا۔ یہ سب باتیں صحیح ہیں لیکن وہ میرا جی تھا، وہ میرا جی جس تک پہنچنے کے ان سب سے گذرنا پڑتا ہے اور وہی گذرتے ہیں جو ان تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ یا جن میں اس کی صلاحیت ہوتی ہے۔
اس اجلاس کی نظامت کے فرائض علی حیدر ملک نے انجام دیے۔
..................................................

 چشمِ تماشا : امجد اسلام امجد
کراچی آرٹس کونسل کی ادبی کانفرنس

شاید بہت کم قارئین کے علم میں یہ بات ہو کہ ثناء اللہ ڈار المعروف میرا جی نے صرف ساڑھے سینتیس برس کی عمر پائی تھی اور یہ کہ2 3 برس کی عمر تک وہ شاعری‘ تراجم اور تنقید کے اصناف میں اس قدر اعلیٰ معیاری اور غیر روایتی ادب تخلیق کر چکے تھے کہ جس کی مثال اردو بھی کیا دنیا کی دیگر ترقی یافتہ زبانوں میں بھی کم کم ہی مل پائے گی۔ میں ان کی ایک تنقیدی کتاب ’’مشرق و مغرب کے نغمے‘‘ کی نثر اور تنقیدی بصیرت کا اپنی طالب علمی کے دنوں سے قائل اور گھائل ہوں مگر ان سے متعلق خصوصی نشست میں یہ جان کر میری گرویدگی میں مزید اضافہ ہوا کہ یہ مضامین انھوں نے اپنی محدود تعلیم کے باوجود اس عمر میں لکھے تھے جب ہمارے بیشتر نقاد ان ’’نغمہ گروں‘‘ کے کام تو کیا نام تک سے واقف اور آشنا نہیں ہوتے۔

یوں تو اس نشست میں صدر محفل کشور ناہید کے علاوہ ڈاکٹر شمیم حنفی، مسعود اشعر، فہمیدہ ریاض، شاہدہ حسن، ڈاکٹر ناصر عباس نیئر اور وسعت اللہ خان سب ہی نے (کمپیئر علی حیدر ملک سمیت) میرا جی کے بارے میں بہت اچھی گہری، نئی، خیال انگیز اور فکر افروز باتیں کیں لیکن مجھے ذاتی طور پر وسعت اللہ خان کا مقالہ سب سے زیادہ پسند آیا کہ انھوں نے بڑے لطیف اور نیم طنزیہ پیرائے میں میرا جی کی شخصیت‘ کام اور ان کے دور کی ادبی فضا کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا کہ حقیقت افسانہ اور ڈراما کچھ دیر کے لیے یکجان سے ہو گئے۔
...............................
کالم مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس۔۹؍دسمبر ۲۰۱۲ء 
سے متعلقہ اقتباس

.............................................
میرا جی اورمنٹو  

 کالم مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس
بدھ 12 دسمبر 2012
سے متعلقہ اقتباس

منٹو اور میرا جی کے حوالے سے منائی جانے والی عالمی اردو کانفرنس میں بات تو دونوں پر ہوئی، لیکن داد و تحسین جتنی منٹو کو ملی اتنی بے چارے میرا جی کے حصے میں نہ آئی۔ وہ تو بھلا ہو محترم انتظار حسین کا کہ انھوں نے اپنے کالم کے ذریعے یاد دلایا کہ منٹو کو تو یاد کرتے ہو لیکن میرا جی کو کیوں بھول جاتے ہو کہ اس کا سال بھی 2012 ہی ہے۔ تب کراچی آرٹس کونسل نے فوراً ہی میرا جی کو یاد کرنے کا بھی اہتمام کرلیا۔ ایک اور ستم ظریفی ملاحظہ ہو جو میرا جی کے حصے میں آئی وہ یہ کہ وسعت اللہ خان نے بتایا کہ انھوں نے میرا جی کے بارے میں انٹرنیٹ سے معلومات چاہیں تو جواب آیا، اداکارہ میرا کے بارے میں اور ہدایت کارہ میرا نائر کے متعلق۔
پھر انھوں نے میرا جی کو ان کے اصلی نام سے ڈھونڈا یعنی ثناء اللہ ڈار، تو تفصیلات موصول ہوئیں پنجاب کے وزیر قانون رانا  ثناء اللہ کی۔ یہ ایک المیہ ہے کہ میرا جی کو جی بھر کے نہ صرف نظر انداز کیا گیا بلکہ اس پر مضامین کے ذریعے بڑے نام نہاد لوگوں نے تبرّے بازی بھی کی اور خود کو غالبؔ سے بڑا شاعر بھی تسلیم کرلیا۔ ایک المیہ ہمارے ادب کا یہ بھی ہے کہ ادیب، شاعر یا کسی بھی تخلیق کار اور فنکار کی زندگی اور اس کے فن کو گڈ مڈ کر دیتے ہیں۔ عام طور پر زندگی فن پر حاوی ہوجاتی ہے اور تخلیق کار کی بہت ساری صفات کو اس کی بے ترتیب زندگی کا کفن پہنا کر دفنا دیا جاتا ہے۔ میرا جی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اس موقع پر کشور ناہید صاحبہ نے ایک بڑی اچھی بات کہی کہ میرا جی پر مضامین پڑھنے والوں نے اس میرا سین کا بالکل ذکر نہ کیا جس کی وجہ سے ثناء اللہ ڈار میرا جی بن گیا۔ ساتھ ہی انھوں نے اختر الایمان کی یاد داشتوں پر مشتمل کتاب ’’اس آباد خرابے میں‘‘ کی طرف بھی توجہ دلائی جس میں میرا جی کی زندگی کے آخری دنوں کا احوال موجود ہے۔ کیونکہ وہی ایک شخص تھے جو ان کے ساتھ رہے اور انھوں نے ہی میرا جی کو ایک خیراتی اسپتال میں داخل کرا دیا تھا۔ تیسری بات کشور ناہید نے گیتا پٹیل کے بارے میں کی اور کہا کہ میرا جی کو سمجھنے کے لیے گیتا پٹیل کی کتاب پڑھنا بہت ضروری ہے۔
..........................................................



Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen